Wednesday, 20 February 2019

Saudi Arab Pakistan and Neighbors

سعودی بھیک اور گرم ہوتی سرحدیں۔
مجھے شیعہ ہونے کے باوجود ایرانی نظام سیاست سے شدید اختلاف ہیں لیکن یہ تحریر پولیٹیکل سائنس کا ادنی سا طالبعلم ہونے کے ناطے ایک حساس پاکستانی کی آواز ہے جس سے آپ کو اختلاف کا حق یقیناً حاصل ہے۔
پاکستان کے چار ہمسایہ ممالک میں سے دو کے ساتھ ہمارے تعلقات مکمل طور پہ بگڑ چکے ہیں۔ ہندوستان سے تو آغاز قیام پاکستان سے سلسلہ جاری ہے حالیہ دور میں افغانستان سے بھی ہمارے تعلقات میں کوئی گرمجوشی نہیں رہی بلکہ افغانستان میں پاکستان کو ایک دشمن ملک سمجھا جاتا ہے۔ چائنہ کا رول اس وقت ایسٹ انڈیا کمپنی جیسا ہے۔ چائینیز حکام نے پاکستان کو اپنا اسرائیل تک قرار دیا ہے یعنی امریکہ کے لئے جو اسرائیل کی اہمیت و کردار ہے وہی ہمارا چائنہ کے لئیے ہے۔ اس لئیے چین سے ہمارے تعلقات بہتر ہی رہیں گے سواۓ
چھوٹے موٹے اختلافات کے کیونکہ چینی یہاں اپنے مفادات کا جال بچھا چکے ہیں۔
پیچھے صرف ایک ہمسایہ رہتا تھا ایران۔ جس کے ساتھ ہمارا بارڈر ٹھنڈا تھا لیکن اب وہ بھی گرم ہونا شروع ہو گیا ہے۔ حالیہ دنوں میں وہاں خودکش حملہ ہوا اور ایران نے اسکا الزام پاکستان پہ لگا کے جوابی کارروائی کی دھمکی بھی دی.(بدقسمتی سے یہ پہلی بار نہیں ہوا) اگر آپ بین الاقوامی سیاست کو تھوڑا بہت بھی سمجھتے ہیں تو آسانی سے سمجھ سکتے ہیں کہ ہم دشمنوں میں گھرتے جا رہے ہیں۔ کسی بھی ملک کے چار میں سے تین ہمسایوں کا ایک مشترکہ ہمساۓ سے تنگ ہونا درست نہیں ہوتا وہ بھی اس صورتحال میں کہ پوری دنیا میں آپ کا امیج بھی انتہا پسند ریاست کا ہو۔
جلتی پہ تیل کا کام آج سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر کے بیان نے کیا۔ ہمارے وزیر خارجہ کی موجودگی میں ایران پہ دھشت گردی کے الزامات کی بوچھاڑ کر دی۔ ( یمن میں جیسے خود پھول برسا رہے ہیں، میزائل نہیں) اس نازک موقع پہ پی ٹی وی نے انکی آواز تھوڑی دیر کے لئیے میوٹ کر دی لیکن صرف یہیں بات ختم نہیں ہوئی بلکہ جب شاہ محمود قریشی نے پریس کانفرنس ختم کرنے کے بہانے بات ٹالنے کی کوشش کی اور کہا ہمارے پاس وقت کم ہے تو سعودی وزیر خارجہ نے صاف کہھ دیا میرے پاس بہت وقت ہے۔ یہ سفارتی آداب کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ سعودی دورے کا مقصد پاکستان میں سرمایہ کاری تھی یا ایران کو دھشت گرد ملک قرار دینا وہ بھی پاکستانی وزیر خارجہ کو ساتھ بٹھا کے۔
جذباتی عوام کو سمجھانا مشکل ہوتا ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے اگر ہمیں سعودی سرمایہ کاری کے عوض اپنے تیسرے ہمساۓ سے تعلقات سرد کرنے پڑیں تو یہ انتہائی گھاٹے کا سودا ہوگا۔ فرقہ وارانہ منافرت کا جن الگ سے بے قابو ہوگا جو پہلے ہی وطن عزیز میں لاکھوں خاندان اجاڑ چکا ہے۔
کلبھوشن کا معاملہ اٹھانے سے یہ پہلے یہ یاد رکھنا چاہیے کہ
آج تک کوئی پاکستانی سفیر ایران میں قتل نہیں ہوا۔
لیکن ایرانی قونصل جنرل صادق گنجی کو ملتان میں لشکر جھنگوی نے قتل کیا۔
آج تک کوئی پاکستانی فوجی ایران میں قتل نہیں ہوا
لیکن غالبا" چھ یا سات ایرانی ائیر فورس کیڈٹس نوے کی دہائی میں راولپنڈی میں قتل ہوۓ۔
65 اور 71 کی جنگوں میں پاکستانی لڑاکا طیارے ایرانی ائیر بیسز پہ لینڈ کرتے رہے لیکن عراق ایران جنگ کے دوران ہم غیر جانبدار بلکہ کسی حد تک صدام کے حامی رہے۔
بلوچستان میں ملا منصور کو جب امریکی ڈرون نے ہٹ کیا تو وہ ایران سے پاکستان آ رہا تھا یہ تو سب نے رپورٹ کیا لیکن یہ کسی نے نہیں بتایا کہ اسکے پاس پاسپورٹ پاکستانی تھا جس پہ وہ ایران میں داخل ہوتا تھا۔ ہم لوگ پورا سچ سننے کی ہمت بھی تو نہیں رکھتے۔
ہو سکتا ہے آپ انڈیا ایران تعلقات کا حوالہ دیں لیکن تحقیق کر لیں اگر انڈیا ایران دوستی بڑھ رہی ہے تو اسکی وجہ انڈیا کا ایران کے معاملے میں امریکی دباؤ قبول نہ کرنا ہے۔ اس وقت بھی انڈیا ایرانی تیل کا بہت بڑا خریدار ہے۔ جبکہ ہم ایک گیس کا منصوبہ تک مکمل کرنے پہ تیار نہیں کیونکہ امریکہ اور سعودی عرب ناراض ہو سکتے ہیں۔ انڈیا اپنی فارن پالیسی میں توازن برقرار رکھنے کا ہنر ہم سے بہت بہتر جانتا ہے اس لئیے اسکے تعلقات بیک وقت ایران اور سعودی عرب دونوں سے بہترین ہیں۔
ہسماۓ کسی صورت نہیں بدلے جا سکتے اس لئیے بہتر ہے ہم سعودی کیمپ میں اتنا نہ گھسیں ( بدقسمتی سے ہم گھس چکے ہیں) کہ تینوں ہمساۓ ہمارے خلاف ایکا کر لیں۔ مطالعہ پاکستان کو کل تاریخ سمجھنے والی نسل کو شاید پتہ نہیں کہ جنگیں مسائل بڑھاتی ہیں کم نہیں کرتی اور یہ بھی جان لیں ایرانی اور افغانی قوموں کا جنگی تجربہ پاکستان سے بہت زیادہ ہے۔ انڈیا کو چھوڑیں کم سے کم دونوں مسلم ممالک سے دوستی اور اعتماد بحال رکھیں جنگی ٹھرک پوری کرنے کے لئیے ایک دشمن سے فی الحال کام چلا لیا جاۓ تو کوئی حرج نہیں۔
نوٹ:- ایٹم بم اور فوج پہ اترانے کی کوئی ضرورت نہیں وہ روس کے پاس آپ سے بہت زیادہ تھے۔

No comments:

Post a Comment